URDU-NASAR
-
خدا اور بندہ
مجھے آج بھی بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب خُداناخواستہ کسی کے ہاتھ سے قرانِ پاک یا سیپارہ گِر جاتا تھا تو وہ شخص اللہ سے معافی کاطلبگارہوتااور اکثر وہ شخص قرانِ پاک کے وزن کے برابر شیرینی تقسیم کرتا۔ اِس فعل سے دو طرح کے فوائد ہوتے، ایک تو خدا اور بندے کے درمیان براہِ راست تعلق استوار رہتا اور دوسرا گاوں کے بچوں کا پیٹ بھی بھر جاتا۔ پھر پتہ نہیں کیا ہواکہ خُدا اور بندے کا یہ تعلق شاید کمزور ہوتا گیا یا شاید کمزور کر دیا گیااور براہ راست تعلق کی جگہ بُہت سے جج حضرات نے لے لی جو جنت اور جہنم کی اسناد دینے کا فیصلہ لمحمہ بھر میں کرنے سے بھی نا کتراتے۔ پھرشائد توبہ کرنے والوں سے جج حضرات کی تعداد بڑھ گئی اور بیک وقت ایک شخص کو جنت اور جہنم کے کئی پروانے صادر کئے جانے کا دور شروع ہواء۔اور پھر شائد ہر بندہ ہی جج بن بیٹھا اندر توں ہیں، باہر توں ہیں، روم روم وچ توں – توں ہیں تانا، توں ہیں بانا، سب کچھ میرا توں کہے حسین فقیر نماناں، میں ناہیں سب توں
-
ہم کلامی ۔ میں ڈرتا ہوں !
میں ڈرتا ہوں! کہ میرے الفاظ شائد بانجھ ہوتے جا رہے ہیں اور میں ان کو جِلا دینے کی تگ و دو میں کہیں اپنے آپ سے دور نکل آیا ہوں۔ کہ میں شعور و لاشعور کی جنگ میں شائد خود سے ہی ہار کر کسی شکست خوردہ سپاہی کی مانند پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ کہ اس مکاں و لامکاں کے رموز میں شائد میری ذات اک پرچھائی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں اور وہ پرچھائی بھی گردابِ مسلسل میں ہے۔ کہ میری کم ظرف منطق نے شعور کے تشخص کو کہیں دھندلا سا دیا ہے اور اس بڑھتی ہوئی دھند نے میری قوتِ اعتقاد کو کہیں…
-
ہم کلامی – میں کون ہوں
میں اکثر تنہائی میں ، اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ، میں کون ہوں؟اور میری آواز میرے من کے سنسان کھنڈر کی دیواروں سے ٹکرا کر گونجتی ہوئی میری سماعتوں کے دریچوں میں یوں باز گشت پیدا کرتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ سب اِس سوال پہ نوحہ کناں ہیں یا شائد اِس تلاش کی منزل کے مسافر ہیں۔ اس تلاش میں کہیں حقیقت افسانہ کا روپ دھارتی ہے تو کہیں افسانہ حقیقت کا یا شائد سب حجاب ہے۔ زندگی کی اِس کہانی میں بھی سبھی کردار یہی سوال کرتے ہوئے نظر آئے تو شائد اِس تلاش کی منزل ہی سفر ٹھہری۔شائد تلاش کا یہ سوال ہی…
-
ھم کلامی ۔ انسان اور امید
ایک کسان اپنی پکی ہوئی گہیوں کے کھیت میں کھڑا، فصل سے کُچھ یوں مخاطب تھا! اے میری فصل، اِس بار میں اپنی وہ خواہشات بھی پوری کروں گا جو مدتوں سے اپنے دِل میں دبائے ہوئے تھااور گہیوں کے پکے ہوئے ٹیڑھے خوشے اُس کی ہر بات کے جواب میں سرتسلیمِ خم کئے ہوئے نظر آئے۔کسان واپس گھر کی طرف لوٹا تو اپنی بیوی سے یوں مُخاطب ہوا!اے میری شریکِ حیات، اِس سال تیرے سارے ارمان پورے کروں گا کی فصل جوبن پہ ہےلیکن تیرے جوبن سے بڑھ کہ کوئے جوبن عزیزِمن نہیں۔پھر ہوا یوں کہ بادل کی کُچھ ٹکڑیاں اُمڈ آئی اور آسمان کو ایسے ڈھانپ لیا جیسے…



