مجھے آج بھی بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب خُداناخواستہ کسی کے ہاتھ سے قرانِ پاک یا سیپارہ گِر جاتا تھا تو وہ شخص اللہ سے معافی کاطلبگارہوتااور اکثر وہ شخص قرانِ پاک کے وزن کے برابر شیرینی تقسیم کرتا۔ اِس فعل سے دو طرح کے فوائد ہوتے، ایک تو خدا اور بندے کے درمیان براہِ راست تعلق استوار رہتا اور دوسرا گاوں کے بچوں کا پیٹ بھی بھر جاتا۔
پھر پتہ نہیں کیا ہواکہ خُدا اور بندے کا یہ تعلق شاید کمزور ہوتا گیا یا شاید کمزور کر دیا گیااور براہ راست تعلق کی جگہ بُہت سے جج حضرات نے لے لی جو جنت اور جہنم کی اسناد دینے کا فیصلہ لمحمہ بھر میں کرنے سے بھی نا کتراتے۔ پھرشائد توبہ کرنے والوں سے جج حضرات کی تعداد بڑھ گئی اور بیک وقت ایک شخص کو جنت اور جہنم کے کئی پروانے صادر کئے جانے کا دور شروع ہواء۔اور پھر شائد ہر بندہ ہی جج بن بیٹھا
اندر توں ہیں، باہر توں ہیں، روم روم وچ توں – توں ہیں تانا، توں ہیں بانا، سب کچھ میرا توں
کہے حسین فقیر نماناں، میں ناہیں سب توں