ھم کلامی ۔ انسان اور امید
ایک کسان اپنی پکی ہوئی گہیوں کے کھیت میں کھڑا، فصل سے کُچھ یوں مخاطب تھا!
اے میری فصل، اِس بار میں اپنی وہ خواہشات بھی پوری کروں گا جو مدتوں سے اپنے دِل میں دبائے ہوئے تھااور گہیوں کے پکے ہوئے ٹیڑھے خوشے اُس کی ہر بات کے جواب میں سرتسلیمِ خم کئے ہوئے نظر آئے۔
کسان واپس گھر کی طرف لوٹا تو اپنی بیوی سے یوں مُخاطب ہوا!
اے میری شریکِ حیات، اِس سال تیرے سارے ارمان پورے کروں گا کی فصل جوبن پہ ہےلیکن تیرے جوبن سے بڑھ کہ کوئے جوبن عزیزِمن نہیں۔
پھر ہوا یوں کہ بادل کی کُچھ ٹکڑیاں اُمڈ آئی اور آسمان کو ایسے ڈھانپ لیا جیسے کُسی بوڑھی ساحرہ کے سرمئی بال ہوں۔ اور فلک یوں کُھل کے برسا کے جل تھل ہو گئی اور گہیوں کے خوشے جو کسی جیتی ہوئے فوج کے زورآور سپاہی کی طرح سینہ تانے کھڑے تھے اِسی بادوباراں میں کہیں گُم سے ہو گئے۔
وہی کسان جو کل اپنی فصل سے باتیں کر رہا تھا آج اُسکے الفاظ ختم ہو گئے تھے یا شائد وہ فریق ہی نہیں تھا جِس سے وہ کل تک محوِگفتگو تھا۔
وقت کا پہیہ یونہی چلتا رہا اور پھر میں نے اُسی کسان کو اپنے کھیت میں کھڑےدھرتی سے یوں محوِ گفتگو دیکھا !
اے دھرتی تو میری ماں ہے، تیرے سینے سے مُجھے رزق عطا ہوتا ہے اور وہی گہیوں کے خوشے اثبات میں سر ہلاتے نظر آے۔
اور میں نے ایک انسان کو دیکھا جو اُمید و یاس کی جنگ لڑتے ہوئےزندگی کے گُلہاے کمیاب کو سینچنے کی کشمکش میں تھا۔ شائد اِسی کا نام زندگی ہے ۔ ۔ ۔


