URDU-NASAR

ہم کلامی – میں کون ہوں

میں اکثر تنہائی میں ، اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ، میں کون

ہوں؟
اور میری آواز میرے من کے سنسان کھنڈر کی دیواروں سے ٹکرا کر گونجتی ہوئی میری سماعتوں کے دریچوں میں یوں باز گشت پیدا کرتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ سب اِس سوال پہ نوحہ کناں ہیں یا شائد اِس تلاش کی منزل کے مسافر ہیں۔ اس تلاش میں کہیں حقیقت افسانہ کا روپ دھارتی ہے تو کہیں افسانہ حقیقت کا یا شائد سب حجاب ہے۔ زندگی کی اِس کہانی میں بھی سبھی کردار یہی سوال کرتے ہوئے نظر آئے تو شائد اِس تلاش کی منزل ہی سفر ٹھہری۔
شائد تلاش کا یہ سوال ہی بے معنی ہے اور اِس حقیقت کے ادراک کے لئے اِک زندگانی ناکافی ہو۔ یا پھر حقیقت سے کہیں دور مجذوبیت ہی میں اِس کا راز پنہاں ہے اور پھر نظر بے اختیار مولانا روم کی طرف اُٹھ جاتی ہے، جب وہ فرماتے ہیں:
ـصحیح اور غلط سے کہیں دور ایک باغ ہے، میں تمہیں وہی ملوں گا۔
لیکن کہاں میں منطق میں گُمشدہ پرچھائی اور کہاں مولانا روم کا قولِ عظیم۔
پھِر اُن پاکیزہ ہستیوں کی طرف دیکھا جنہوں نے اِس تلاش میں منزلِ مقصودپائی تو امیر خسُرو رحمۃ اللہ علیۃ نظر آئے:
آپ شہرسے باہر گئے ہوئے تھے تو آپکے مُرشد حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہوا ۔ جب امیر خُسرو واپس آئے تو مُرشد کی خدمت میں حاظری کے لئے حاظر ہوئے اور جب آپکو پتہ چلا کہ مُرشد کامل وصال فرما گئے ہیں تو آپ حالت جزب میں چلے گئے اور اُسی حالت میں دم توڑ دیا۔ کہاں وہ پاک ہستیاں اور کہاں میں کم ظرف ۔
یہ تلاش کا سفر کتنا ہے، منزل کیا ہے اور کونسا قافلہ ہے جو منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں ہے۔ میں اپنی اُلجھی ہوئے منطق سے شعور اور لاشعور کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے اِن غلام گردشوں میں کہیں گُم ہوا تو میری اپنی ذات اِس مکاں سے لامکاں کی تلاش کے سوال کیلئے اک ذرہ بے نشاں محسوس ہوئی۔ اور پھر بابا بُھلے شاہ رحمتہ اللہ علیہ اِس سے حجاب ہٹاتے ہوئے نظر آئے۔
اِک نقطے وچ گل مکدی ہے
پھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں
یہ سنتے ہی میں منطق سے بیگانہ ہو گیا، میری انگلیاں شل ہونے لگی اور میرے الفاظ بانجھ ہونے لگے ، شائد اِس سوال کاجواب ہی خود سے خود کو شکست دینا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *